اولی الامر سے مراد
اولی الامر سے مراد
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا )النساء :59 (
ترجمہ ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو اور رسول)ﷺ( کی اور اولی الامر کی اگر تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ ورسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہویہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے.
اس آیت میں اولوالامر کے معنی حکومت والے ہیں او ریہی معنی مراد بھی ہیں یعنی بادشاہ اسلام او رحاکم جو صاحب حکومت او ربااختیار ہوتے ہیں.
’ابن جریر طبریؒ )مفسرین کے اقوال کا ایک طویل ذکر کرنے کے بعد( اسی کو ترجیح دیتے ہیں.
شاہ ولی اللہ صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں، اےمومنان فرمانبرداری کنید خدارا و فرمانبرداری کنید پیغامبر راد فرمانروایان را از جنس شما .
اور شاہ عبدالقادر صاحب اس طرح لکھتے ہیں:اے ایمان والو! حکم مانو اللہ اور اس کے رسول کا، او ران کا جو تم میں سے اختیار والے ہیں اور فائدہ میں لکھتے ہیں ’’اختیار والے بادشاہ اورقاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہوں ان کے حکم پر چلنا ضرور ہے الخ۔
پس بعض علماء کا اس آیت میں اولی الامر سے ائمہ مجتہدین مراد لینا او راس سے تقلید ائمہ مجتہدین کی فرض بتانا بالکل غلط ہے ، کیونکہ ائمہ مجتہدین میں سے کوئی بھی صاحب حکومت نہیں تھے اور اگر بالفرض ان میں کوئی صاحب حکومت و بااختیار ہوتا بھی تو بھی اس آیت سے اس کی تقلید کرنے کا ثبوت نہیں ہوتا ہے ہاں اس آیت سے اس کے زیرحکومت رعایا پر اسکے حکم کا ماننافرض اور ضروری ہوتا او ریہ بھی اس کے حاکم ہونے کی وجہ سے ، نہ کہ اس کے امام دین ہونے کے سبب سے او رحاکم کا حکم ماننا اور بات ہے او رمسائل دینیہ میں اس کی تقلید کرنا او ربات، دیکھو مثلاً سلطان روم کی تمام رعایا جو ان کے زیر حکومت ہیں، ان کے حکم ماننےکو ضروری سمجھتے ہیں اور مانتے بھی ہیں مگر نہ ان کی تقلید کو ضروری سمجھتے ہیں اور نہ ان کےمقلد ہیں۔
خلاصہ کلاماولی الامر کی اطاعت اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت سے مقید ہے ، لہذا اس کا معنی و مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ ورسول ﷺکی مطلق اطاعت کریں اور اولی الامر وحکمراں کی اطاعت شریعت کی اطاعت سے مشروط کرکے کیا کرو۔اگر حکمران اور عوام کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو اس کے حل کے لیے کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺکی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اللہ نے بتلادیا کہ اللہ ویوم آخرت پر ایمان کا یہی تقاضا ہے ۔۔
No comments:
Post a Comment