داود بن صالح روایت کرتے ہیں کہ ایک دن مروان آیا تو اس نے دیکھا ایک شخص رسول الله کی قبر پر اپنا چہرہ رکھے ہوۓ تھا مروان نے اس کی گردن پکڑی پھر کہا تم کیا کر رہے ہو وہ آدمی مروان کی طرف متوجہ ہوا مروان نے دیکھا وہ ابو ایوب رضی الله عنھ تھے انھوں نے فرمایا میں رسول الله صلی الله علیھ وسلم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں .... آخر تک .(طبرانی الکبیر رقم ٣٩٩٩ ،
تحقیق : اس روایت کی اسناد میں تین راوی ضعیف ہیں اور ہم ترتیب وار ان کو بیان کرتے ہیں .
(١) کثیر بن زید : اس راوی میں کچھ ضعف ہے اوریہ راوی اس روایت کی تمام اسناد میں موجود ہے اس کے ضعف کے بارے میں اقوال یہ ہیں
یعقوب بن شیبہ : اس کے صا لح ہونے کی وجہ سے اس کے ضعف کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا .ابو زرعہ : سچا ہے مگر اس میں ضعف ہے .امام النسائی : ضعیف ہے .(تہذیب التہذیب ترجمہ ٥٨٠١ )
(٢) داود بن صا لح حجازی : امام ذہبی فرماتے ہیں " جانا نہیں جاتا اور اس سے صرف ولید بن کثیر نے روایت کی ہے (میزان الاعتدال ترجمہ ٢٩٠٤ )
ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام ذہبی نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ایوب انصاری رضی اللہ عنھ والی روایت ہے اور اس میں ولید بن کثیر نہیں بلکہ کثیر بن زید ہے (تہذیب التہذیب توجمہ ١٨٥٥) اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ داود بن صا لح حجازی سے صرف ایک نے روایت کیا اور اس بنا پر یہ راوی مجہول ہے .
(٣) احمد بن رشدین : اس کا نام رشدین بن سعد مفلح ہے اور یہ راوی طبرانی کبیر الاوسط دونوں کتب میں موجود ہے اس کے بارے میں اقوال درج ہیں .
ابو حاتم: منکر الحدیث ہے اور ثقہ راویوں سے منکر روایات نقل کرتا ہے .جوزجانی : ضعیف الحدیث ہے . امام النسائی : ضعیف الحدیث ہے . امام دارقطنی ،امام ابوداود ، ابن سعد : ضعیف الحدیث ہے .(تہذیب التہذیب جلد ٣ ص ١٠٣ )
(٤) مطلب بن عبدالله بن حنطب : یہ راوی بھی طبرانی کبیر الاوسط دونوں کتب میں احمد بن رشدین کے ساتھ موجود ہے اور اس نے ایوب انصاری رضی الله عنھ سے روایت کی ہے مگر اس کا سماع ان سے ثابت نہیں ہے .
اس راوی کا سماع صرف سلمہ بن الا کوع ، سہل بن سعد انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے ہے یا جو ان سے قریب ہو (جا مع تحصیل ترجمہ ٧٧٤ ) اور سلمہ بن الا کوع ان سب سے قبل ٧٥ ہجری میں وفات پا گئے .اور ایوب انصاری رضی اللہ عنھ ٥١ ہجری میں وفات پا چکے (تاریخ اسلام ذھبی ص ٢٧ ) تو اس راوی کا ایوب انصاری رضی اللہ عنھ ملاقات ثابت نہیں ہے اور وہ ان کے دور کا واقعہ بیان کر رہا ہے یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے .
اس روایات کی تمام اسناد ضعیف ہیں اور ان اسناد میں یہ تمام راوی موجود ہے جو اس روایت کے حجت ہونے کے درمیان حائل ہیں
No comments:
Post a Comment