مفتی کے فتوے پر عمل کرنا نہ تو اصطلاح میں تقلید کہلاتا ہے اور نہ ہی عرف عام میں، اختصار کے پیش نظر صرف ایک ہی حوالہ پیش کیاجارہا ہے۔
حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:۔ تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)
حاصل کلام یہ ہے کہ عام آدمی کا کسی مفتی کے فتوے پر عمل تقلید نہیں ہے، لیکن اگر مقلدین کو اس کے تقلید گرادننے پر اصرار ہے تو اس طرح پھر تمام لوگ بقید حیات علماء کے مقلد ہوئے ایسی صورت میں ان کو احناف،شوافع،حنابلہ یا مالکیہ کیوں کہا جاتا ہے؟ کیونکہ آج کے عوام الناس ائمہ اربعہ سے فتوی طلب نہیں کرتے بلکہ آج کے علماء سے فتوی طلب کرتے ہیں۔ اور جہاں تک اہل مدینہ کی بات ہے تو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بات کو چھوڑ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فتوے کو اس بنیاد پر قبول کیا کہ وہ ان کے اپنے اجتہاد اور تحقیق کے مطابق تھا کیونکہ وہ مقلدین کی طرح جاہل نہیں بلکہ عالم تھے۔ اور اگر بالفرض مان بھی لیں کہ اہل مدینہ نے زید رضی اللہ عنہ کی تقلید کی تو کیا مقلدین یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ہر معاملے میں تقلید کی؟ اور مذاہب اربعہ کی طرح ان کے نام پر زیدی یا ثابتی کہلوایا ہو؟ اور کیا وجہ ہے کہ مقلدین دلائل تو صحابہ کرام کی تقلید کے دیتے ہیں جبکہ خود صحابہ سے کم درجے کے آئمہ اربعہ کی تقلید کو واجب گرادنتے ہیں؟
مقلد کو متعصب اور بیوقوف کا خطاب کس نے دیا ہے ؟ ملاحظہ فرمائیں امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ کا قول :
تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو متعصب اور بیوقوف ہوتا ہے ۔
(بحوالہ : لسان المیزان ٢٨٠/١ )
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تقلید کے خلاف زبردست بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں
اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے ، تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ۔
(بحوالہ : مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، جلد ٢٢ ، صفحہ ٢٤٩ )
========
☝🏼✍🏽✍🏽✍🏽✍🏽✍🏽✍🏽☝🏼
No comments:
Post a Comment