بسم اللہ الرحمن الرحیم
"ہماری دعوت توحیدخالص"
"اتبا ع سنت قرآن وحديث" كي روشني ميں
إِلَّا بَلَٰغًا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِسَٰلَٰتِهِۦ ۚ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَإِنَّ لَهُۥ نَارَ جَهَنَّمَ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا (72:23)
البتہ (میرا کام) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے، (اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے
حدیث؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو تر و تازہ رکهے جو میری کوئی بات سنے پهر اسے اسی طرح دوسروں تک پہنچا دے جس طرح اس نے سنا (ترمذی)
🇸🇦 : "نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال" میری امت میں سے ایک جماعت (اہل حدیث) ہمیشہ حق پر قائم رہے.
اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں، تمام اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت ہے اس وقت سے یہ جماعت ہے، اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے- اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر کہا ہے: "فبای حدیث بعد اللہ و آیاتھ یومنون" (سورۃالجاثیۃ:6)
پس اللہ تعالی اور اس کی آیتوں کے بعد کس پر ایمان لائيں گے-دوسری جگہ فرمایا ہے: "فبای حدیث بعدہ یومنون" (المرسلات:50)
اب اس قرآن کے بعد کس بات پر ایمان لائيں گے- اس کے علاوہ اور دیگر آیتیں ہیں جن میں لفظ حدیث سے مراد قرآن ہے اور ہر خطیب بھی اپنے خطبہ جمع میں یہ پڑھتا ہے۔ " فان خیر الحدیث کتاب اللہ" بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے۔ اور اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقاریر کو حدیث کہا گیا ہے- (مشکوۃ ص:3)
مذکورہ صدر دلائل سے یہ امر اضہر من الشمس ہوگیا کہ قرآن مجید اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقریر حدیث ہیں تو اس اعتبار سے اہل حدیث کے معنی ہوں گے "صاحب قرآن و حدیث" یعنی قرآن اور نبی پاکۖ کے احکام پر عمل کرنے والا-
اصحاب اہل حدیث، اہل حدیث، اہل سنت یہ سب مترادف لفظ ہیں، اہل یا اصحاب کے معنی " والے" اب اس کے نسبت حدیث کی طرف کردیں تو معنی ہونگے، " حدیث والے" اور قرآن کو بھی اللہ نے حدیث کہا ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے- اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اسلام سے مراد" قرآن و حدیث" ہے اور قرآن و حدیث سے مراد اسلام ہے- اور مسلک
اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہ ہی جماعت حق ہے اور رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کا مطلب
" میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ان کا مخالف ان کو نقصان نہ پہنچاسکے گا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے" (مسلم:2/143)
محدثین نے یہی لیا ہے کہ وہ گروہ اہل حدیث ہے- اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
"صدیوں میں بہترین صدی میری ہے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہونگے" (متفق علیہ)
اس سے مراد صحابہ (رض)، تابعین، تبع تابعین کا دور ہے- 222ھ تک کا زمانہ خیرالقرون سمجھا جاتا ہے-
آئيے اب آپ کے سامنے لقب اہل حدیث کے وہ دلائل پیش کیے جارہے ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے موجودہ دور تک ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے- ان شاءاللہ
لقب اہل حدیث ، عہد صحابہ (رض) میں:
1:- "حضرت ابو سعد خدری رضی اللہ عنہ جب حدیث کے جوان طلباء کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے، تمہیں مرحبا ہو، رسول اللہ ۖ نے تمہاری بابت ہمیں وصیت فرمائی ہے ہمیں
حکم دیا ہے کہ ہم تمہارے لیے اپنی مسجدوں میں کشادگی کریں اور تم کو حدیث سمجھائيں کیونکہ تم ہمارے تابعی جانشین اور اہلحدیث ہو"- (شرف اصحاب الحدیث)
2:- " حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اہلحدیث اس حال میں آئيں گے کہ ان کے ساتھ روايتیں ہونگی، پس اللہ تعالی ان سے کہے گا کہ تم اہلحدیث ہو- نبی پاک ۖ پر درود بھیجتے ہوئے جنت میں داخل ہوجاؤ" (طبرانی القول البدیع للسخاوی: تاریخ بغداد 3)
3:- کثیر الروایۃ صحابہ
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (متوفی 57ھ یا 58ھ) کے متعلق امام ابوبکر بن داؤد رقم طراز ہیں کہ میں نے آپ کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا:" اما اول صاحب حدیث کان فی الدنیا" دنیا میں سب سے پہلا حدیث والا " اہل حدیث" میں تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ 1/29)
4:- "خیر الامۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (متوفی 68ھ) اہل حدیث تھے" (تاریخ بغداد 3/227)
لقب اہل حدیث، عہد تابعین میں:
1:-" سید التابعین حضرت عامر بن شرجیل شعبی رحمہ اللہ (متوفی 104ھ) اہلحدیث تھے" (تاریخ بغداد 3/227)
2:-شیخ علی ہجویری لاہوری نے فرمایا ہے، "عبداللہ بن المبارک امام اہلحدیث تھے" یعنی عبداللہ بن مبارک اہلحدیث کے امام تھے- (کشف المحجوب)
3:- علامہ ذہبی اور امام خطیب نے ذکر کیا ہے کہ "امام ذہری رحمہ اللہ خلیفہ عبدالمالک بن ابو سفیان، عاصم الاحول، عبیداللہ بن عمرو، یحی بن سعید الانصاری رحمہ اللہ تابعین میں اہل حدیث کے امام تھے" (تذکرہ الحفاظ 97، تاریخ بغداد 2/245)
4:- "ابوبکر بن عیاش تابعی کہا کرتے تھے الحدیث ہر زمانے میں رہے ہیں جس طرح اسلام دوسرے مذاھب کے مقابلہ میں ہے" ( میزان شعرانی)
5:- صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے ائمہ اہلحدیث کا ذکر کیا گیا ہے مثال کے طور پر" مالک بن انس، شعبہ بن الحجاج، سفیان ابن عینیہ، یحیی بن سعید قطان اور عبدالرحمان بن مہدی وغیرہ" ( مقدمہ صحیح مسلم مطبوعۃ دھلی 23)
6:- "امام ابن قنیبہ اپنی کتاب جو معارف اسماء اہلحدیث سے مشھور ہے اس میں ان لوگوں کے نام گنوائے ہیں جو نبی پاکۖ کے زمارے سے آپ کے زمانے تک گذر چکے ہیں اور 100 نام گنوائے ہیں اور اما ابن قنیبہ تیسری صدی ھجری کے مشھور امام ہیں جیسا کہ امام ذھبی نے ڈکر کیا ہے اور ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان کی وفات 310ھ میں ہوئی ہے" (تذکرہ الحفاظ ج 3)
لقب اہلحدیث، تبع تابعین کے زمانے میں
1:- "تبع تابعین اپنے آپ کو اہلحدیث کے نام سے عزت دیتے تھے اور اس نام سے خوش ہوتے تھے جیسا کہ امام ثوری نے کہا ہے کہ اہلحدیث میرے پاس نہ آئيں تو میں ان کے پاس ان کے گھروں میں جاؤں گا" ( شرف اصحاب اہلحدیث)
2:- "تبع تابعین حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کو ان کے استاد امام ابو حنیفہ نے اہلحدیث بنایا تھا جیسا کہ آپ نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے ہی مجھے اہلحدیث بنایا تھا" (حدائق الحنفیہ: 134، تاریخ بغداد 9/178)
3:- "علامہ شہر ستانی نے اپنی کتاب " الملل والنحل" میں ائمہ اہلحدیث کے نام گنوائے ہیں اور وہ اہل حجاز ہیں اور وہ مالک بن انس اور محمد بن ادریس شافعی کے اصحاب ہیں اور سفیان ثوری کے اصحاب ہیں اور داؤد بن علی بن محمد اصفہانی کے اصحاب ہیں اور اسی طرح علامہ ابن خلدون نے اپنی کتاب تاریخ ابن خلدون میں ذکر کیا ہے" (تاریخ ابن خلدون 1/372)
4:- علامہ ابو منصور عبدالقادر بن طاہر تیمی بغدادی نے اپنی مشھور کتاب " اصول دین" میں صحابہ رض، تابعین اور تبع تابعین رح کے حالات کا ذکر کیا ہے- دوران ذکر میں کہا کہ روم جزیرہ آذربائیجان کی سرحدوں کے پورے باشندے اہلحدیث کے مذھب پر تھے اور اسی طرح افریقہ اور اندلس کے باشندے، بحیرہ عرب کے پورے باشندے، زنج کے ساحل پر یمن کی سرحدوں کے پورے باشندے اہلحدیث تھے" ( اصول الدین 1/310)
5:- امام اللغتہ والخو خلیل بن احمد الفراہیدی (متوفی 164ھ) فرماتے ہیں فرشتے آسمان کے اور اہل حدیث زمین کے محافظ ہیں یعنی یہی دین کی دعوت دینے والے اور تقریر و تحریر سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں- نیز فرماتے ہیں ان کے لیے یہی نیکی کافی ہے کہ وہ جب حدیث میں آپ کا نام آتا ہے تو درود شریف لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں-
6:- مشہور زاہد امام فضل بن عیاض ( متوفی 187ھ) اہل حدیث کو دیکھ کر فرمانے لگے" یا ورثۃ الانبیاء"-
7:- خلیفہ ہارون الرشید (متوفی 193ھ) کہتے ہیں کہ 4 صفات مجھے 4 جماعتوں میں ملیں- کفر جہیمہ میں، بحث و جھگڑا معتزلہ میں، جھوٹ رافضیوں میں، اور حق اہلحدیث میں-
8:- عبداللہ بن داؤد الخریبی (متوفی 213ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذہ سے سنا کہ اہلحدیث اللہ تعالی کی طرف سے اس کے دین کے امین ہیں یعنی علم و عمل میں رسول اللہ ۖ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں (یہ سارے اقوال امام احمد بن سنان الواسطی{۶۵۲ھ}کی کتاب شرف اصحاب اہلحدیث سے لیے گئے ہیں) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحابہ رض، تابعین و تبع تابعین رح یہ قرون ثلاثہ اہلحدیث کے نام سے مشھور تھے اور ان کو اہلحدیث کہا جاتا تھا-
لقب اہل حدیث، ائمہ اسلام کی نظر میں
ائمہ اربعہ خود بھی اہل حدیث تھے اور بڑے ہی شد مد کے ساتھ لوگوں کو اپنی تقلید سے منع کرتے ہوئے صرف قرآن و سنت کی دعوت دیتے تھے-
1:- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (80ھ 150ھ) آپ کے شاگرد سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "پہلے پہل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مجھ کو اہلحدیث بنایا تھا ( حدائق الحنفیہ ص 134)
2:- حنفیت کے بانی امام محمد کے قول کے مطابق انہوں نے اپنی کتاب موطا میں امام زہری کے بارے میں کہا کہ ابن شہاب مدینہ میں اہلحدیث کے نزدیک سب سے بڑے عالم تھے۔ (موطا امام محمد ص 362)
3:- امام شافعی رحمہ اللہ (150ھ 204ھ) کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح (متوفی 728ھ) فرماتے ہیں" امام شافعی رح نے اہلحدیث کا مذھب پکڑا اور اسی کو اپنے لیے پسند فرمایا" (منہاج السنہ 4/143)
4:- علامہ ابن القیم رح (متوفی 751ھ) اعلام الموقعین میں امام شافعی رح کا قول نقل فرماتے ہیں" تم اپنے اوپر حدیث والوں (اہلحدیث) کو لازم پکڑو کیونکہ وہ دوسروں کے اعتبار سے زیادہ درست اور صحیح ہیں۔
5:- امام شافعی رح اہلحدیث کے مذھب پر تھے بلکہ مذھب اہلحدیث کے مبلغ تھے کہ امام نووی رح نے امام شافعی رح کے حالات زندگی میں لکھا ہے، پھر عراق گئے علم حدیث کو پھیلایا اور مذھب اہلحدیث قائم کیا" (تھذیب الاسماءواللغات)
6 :-امام شافعی رح سے روایت ہے کہ آپ فرماتے تھےکہ" اہلحدیث ہر زمانے میں ویسے ہی ہیں جس طرح صحابہ رض ہر زمانے میں تھے- یعنی وہ سختی کے ساتھ کتاب و سنت کی پیروی کرتے تھے" (المیزان الکبری)
7 :- امام مالک (95ھ 180ھ) آپ کے متعلق علامہ شمس الدین ابو عبداللہ ال ذھبی رح (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ " قال وھیب، امام اہلحدیث مالک" یعنی وھیب نے کہا کہ اما مالک رح اہلحدیث کے امام تھے- (تذکرۃ الحفاظ 1/195)
8 :- امام مسلم بن حجاج نیساپوری رح (261ھ) نے امام مالک رح کو " امام اہلحدیث" کہا ہے- (مقدمہ مسلم شریف ص:23)
9 :- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164ھ 241ھ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح آپ کے متعلق فرماتے ہیں " کان علی مذھب اہل حدیث" یعنی آپ رحمہ اللہ اہلحدیث کے مذھب پر تھے- (منہاج السنہ 4/143)
10 :- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ طائفہ منصورہ والی روایت کی تشریح یوں فرماتے ہیں " ان لم یکونو ا اہلحدیث فلا ادری من ہم" یعنی اگر طائفہ منصورہ سے مراد اہلحدیث نہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں- (نووی شرح مسلم 2/143، واللفظ لہ شرف اصحاب الحدیث 14)
11 :- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بالاتفاق اہلحدیث اماموں کے امام ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح نے فرمایا ہے کہ امام احمد اہلحدیث کے مذھب پر تھے- (منہاج السنۃ و ابن خلدون و الملل و النحل)
12 : خلیل بن احمد، صالح بن محمد رازی سے روایت ہے وہ امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا " اگراہلحدیث اللہ کے ولی نہ ہوں تو زمین میں پھر اللہ کا کوئی بھی ولی نہیں" (شرف اصحاب الحدیث)
13: امام الدنیا فی الحدیث فخر المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ علیہ (المتوفی 256ھ) جن کی کتاب صحیح بخاری ہے اور تمام اہل علم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ الصحیح البخاری یعنی قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے- حدیث نبوی لاتزال طائفۃ الخ کی تفسیر میں امام بخاری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے علی بن مدینی کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " وہ گروہ االحدیث ہیں" (ترمذی، فتح الباری 13/294)
14:- امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی 261ھ) جن کی مشہور کتاب صحیح مسلم ہے صحیح بخاری کے بعد اسی کا درجہ ہے خود امام مسلم رح نے اپنے صحیح کے مقدمہ میں ائمہ اہل حدیث کا ذکر کیا ہے- (مقدمہ صحیح مسلم مطبوعہ دھلی:43)
15:- حدیث نبوی لاتزال طائفۃ الخ کی تفسیر میں عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ گروہ اہلحدیث کا ہے (شرف اصحاب الحدیث)
16:- امام عیسی ترمذی رحمہ اللہ کی شہادت: " طائفہ منصورہ سے مراد اہلحدیث کا طبقہ ہے" (ترمذی)
17:- امام محمد بن حبان رحمہ اللہ کی شہادت: یعنی یہ بات درست ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ ۖ کے سب سے قریب اہلحدیث ہونگے" (جواہر البخاری: 14)
18:- حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ نے اللہ تعالی کا یہ قول " جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائيں گے" نقل کرکے فرمایا ہے کہ سلف صالحین اس آیت کریمہ کے پیش نظر یہ کہتے ہیں کہ حضرات اہلحدیث کے لیے اس سے بڑا شرف اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں ان کے اپنے امام اور رہبر نبی پاکۖ کے ساتھ بلایا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر ص 200)
19:- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا " اہلحدیث کا اعتقاد خالص سنت پر ہے کیونکہ یہ وہی اعتقاد ہے جو نبی پاکۖ سے ثابت شدہ ہے- (منھاج السنۃ:179)
20:- شیخ عبدالقار جیلانی رحمہ اللہ علیہ کی شہادت: آپ نے فرمایا" اہل بدعات کی کچھہ علامتیں ہیں جن سے ان کی پہچان ہوجاتی ہے- ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ اہلحدیث کو برا کہتے ہیں" (غنیۃالطالبین 1/80)
21:- امام علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ مسکراتے ہوئے ایک سوال کا جواب دیا اور فرمایا" الحمد اللہ میں سلفی اور اہلحدیث ہوں اور یہ کہ جس شخص کا منہج سلفیت نہیں وہ حق سے منحرف ہے" (بحوالہ ماہنامہ سبیل المومنین حیدرآباد اکتوبر 2002ء)
اھل الحدیث سے مراد محدثین کرام اور عوام دونوں ہیں یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ اھل الحدیث سے مراد صرف محدثین ہیں جبکہ حقیقت میں اھل الحدیث سے مراد محدثین (صحیح العقیدہ) اور حدیث پر عمل کرنے والے ان کے عوام دونوں مراد ہیں اس کی فی الحال دس دلیلیں پیش خدمت ہیں:
1) علمائے حق کا اجماع ہے کہ طائفہ منصورہ (فرقہ ناجیہ) سے مراد اہلحدیث ہیں جس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہےتو کیا فرقہ ناجیہ صرف محدثین ہیں؟
ہرگز نہیں یہ بالکل خلاف عقل اور خلاف حقیقت ہے، طائفہ منصورہ اھل الحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔
2) امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: "صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث" ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل لابن الجوزی ص۲۰۹ و سندہ صحیح)
3) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلحدیث کا یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے حدیث سنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اور فہم کا ظاہری اور باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری اور باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہل قرآن کا ہے۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۴ ص ۹۵)
4) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی یہ صفت بیان کی ہے: "وہ حدیثیوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں" (صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۱۲۹)
5) امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ (المتوفی ۲۵۹ ھجری) نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہلحدیث سے بغض نہیں رکھتا (معرفة علوم الحدیث للحاکم ص۴ وسندہ صحیح)
یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ صحیح العقیدہ محدثین اور ان کے عوام سے اہل بدعت بہت بغض رکھتے ہیں۔
6) قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امام کیساتھ پکارا جائے گا (بنی اسرائیل:۷۱) اس کی تشریح میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہلحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہيں (تفسیر ابن کثیر ۱۶۴/۴)
کیا صرف محدثین کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ نہیں بلکہ اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں
7) امام ابن قیم نے اپنے مشہور قصیدے نونیہ میں فرمایا: " اے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو" (الکافیہ الشافیہ ص ۱۹۹)
8) امام جلال الدین سیوطی نے بنی اسرائیل:۷۱ کی تفسیر میں نقل فرمایا: "اہل حدیث کے لیئے اس سے زیادہ فضیلت والی کوئی اور بات نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ان کا کوئی امام نہیں۔ (تدریب الراوی جلد۲ ص ۱۲۶) یہاں بھی اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔
9) ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر البغدادی (المتوفی ۴۲۹ ھجری) نے ملک شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا: وہ سب اہلسنت میں سے اہلحدیث کے مذہب پر تھے۔ (اصول دین ص ۳۱۷) یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ صرف محدثین ہی مذکورہ سرحدی علاقوں میں رہتے تھے اور وہاں ان کے عوام موجود نہیں تھے لہذا اس حوالے سے بھی ثابت ہوا کہ محدثین کے عوام بھی اہل حدیث ہیں۔
10) ابو عبداللہ محمد بن احمد بن البناء المقدسی البشاری (متوفی ۳۸۰ ھجری) نے اپنے دور کے اہل سندھ کے بارے میں لکھا: "مذاھبھم أکثرھم أصحاب حدیث ورأیت القاضي أبا محمد المنصوري داودیًّا إماماً في مذھبھ ولھ تدریس و تصانیف، قدصنّف کتباً عدّة حسنةً" ان سندھیوں کے مذاہب میں اکثر اہلحدیث ہیں اور میں نے قاضی ابو محمد المنصوری کو دیکھا، وہ داؤد ظاہری کے مسلک پر اپنے مذہب (اہل ظاہر) کے امام تھے، وہ تدریس بھی کرتے ہیں اور کتابیں بھی لکھتے ہیں، انہوں نے بہت سی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ (احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ص ۳۶۳)
بشاری نے سندھیوں کی اکثریت کو اہلحدیث قرار دے کر ثابت کر دیا کہ محدثین کی طرح صحیح العقیدہ عوام بھی اہلحدیث ہیں نیز (1867 میں) فرقہ دیوبند کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے۳۸۰ ھجری میں سندھ میں اہلحدیث اکثریت میں تھے
No comments:
Post a Comment