Tuesday 16 January 2018

حنفی مذہب فقہ کی جائز نماز کا نقشہ


🌹 حنفی مذہب فقہ کی جائز نماز کا نقشہ ! 🌹

👈🏻 جانور سے ، مردے سے ،چھوٹی لڑکی وغیرہ سے وطی کرکے بغیر انزال کے بے غسل آجائے نماز جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۳۱،۳۲)

👈🏻 اسی طرح عورت بھی کسی جانور سے صحبت کرائے یا مردے سے تو اس پر بھی نہ غسل واجب ہے نہ وضونہ اپنی شرمگاہ دھونا ۔

 (مراقی الفلاح ۔ حاشیہ الطحاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۵۳)

👈🏻 کپڑے پر، بدن پر،عورت کی فرج کی رطوبت لگی تو کوئی حرج نہیں ۔

 ( در مختار ج،۱ ص۳۲)

 👈🏻 بچے کی ولادت کے وقت کی چکنائی لگی ہو تو کوئی حرج نہیں
( درالمختار ج،۱ ص ۵۶۴)

 👈🏻 جانور کے بچے کی یہ رطوبت ہو تو کوئی حرج نہیں ۔

( در المختار ج،۱ص۵۶۴)

👈🏻 کتے کی کھال، سور کی کھال اور جس درندے کی چاہے رنگی ہوئی کھال پہن لے اوڑھ لے جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۳۸)

 👈🏻 رنگی ہوئی نہ ہو تو بھی جائز ہے ۔

( در مختار ج،۲ ص۲۳۰)

 👈🏻 ذبح کئے ہوئے سور اور ذبح کئے ہوئے کتے کی کھال کی جا نمازپر نماز جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۲۳۰)

👈🏻 ان کی کھال کا لباس پہن کر بھی نماز جائز ہے ۔

(مراقی الفلاح ج ۱ ص۹۰، طحاوی ج۱ ص۹۷)

👈🏻 کتے کا ، سور کا ،اور جس ذبح کئے ہوئے درندے کا چاہے گوشت اپنی جیبوں میں رکھ لے نماز جائز ہے ۔

(در مختار ج،۱ ص ۳۸، فتاوی عالمگیری ج۱ ، ص ۱۵)

👈🏻 کتے سور ، اور جس درندے کی ہڈیوں کا چاہے ہارپہن لے نماز پڑھے جائز ہے ۔

( ردالمختار ج،۱ ص ۳۵۷، فتاوی عالمگیری ج ۱ ص ۳۹)

👈🏻 کتے سور ، اور جس درندے کی ہڈیوں کا چاہے ہارپہن لے نماز پڑھے جائز ہے ۔

( ردالمختار ج،۱ ص ۳۵۷، فتاوی عالمگیری ج ۱ ص ۳۹)

👈🏻 کتے کا ، سور کا ،اور جس ذبح کئے ہوئے درندے کا چاہے گوشت اپنی جیبوں میں رکھ لے نماز جائز ہے ۔

(در مختار ج،۱ ص ۳۸، فتاوی عالمگیری ج۱ ، ص ۱۵)

👈🏻 ان کی کھال کا لباس پہن کر بھی نماز جائز ہے ۔

(مراقی الفلاح ج ۱ ص۹۰، طحاوی ج۱ ص۹۷)

👈🏻 ذبح کئے ہوئے سور اور ذبح کئے ہوئے کتے کی کھال کی جا نمازپر نماز جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۲۳۰)

👈🏻 کتے کی کھال، سور کی کھال اور جس درندے کی چاہے رنگی ہوئی کھال پہن لے اوڑھ لے جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۳۸)

👈🏻 جانور کے بچے کی یہ رطوبت ہو تو کوئی حرج نہیں ۔

( در المختار ج،۱ص۵۶۴)

👈🏻 بچے کی ولادت کے وقت کی چکنائی لگی ہو تو کوئی حرج نہیں
( درالمختار ج،۱ ص ۵۶۴)

👈🏻 کپڑے پر، بدن پر،عورت کی فرج کی رطوبت لگی تو کوئی حرج نہیں ۔

 ( در مختار ج،۱ ص۳۲)

👈🏻 اسی طرح عورت بھی کسی جانور سے صحبت کرائے یا مردے سے تو اس پر بھی نہ غسل واجب ہے نہ وضونہ اپنی شرمگاہ دھونا ۔

 (مراقی الفلاح ۔ حاشیہ الطحاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۵۳)

👈🏻 جانور سے ، مردے سے ،چھوٹی لڑکی وغیرہ سے وطی کرکے بغیر انزال کے بے غسل آجائے نماز جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۳۱،۳۲)

👈🏻 کتے کی اسی کھال کی ڈول میں پانی بھر کر اس پانی سے وضو کر کے نماز پڑھ لے جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص۳۸)

👈🏻 ذبح کئے ہوئے سانپ اور چوہے کا گوشت لے کر بھی نماز پڑھ لے جائز ہے ۔

( ردالمختار ج،۱ ص ۳۵۸)

👈🏻 کتے کے پلے کو بغل میں دبا کرنماز پڑھ لے جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص ۳۹)
👈🏻 بڑے کتے کو سر پر چڑھاکر نماز پڑھ لے جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ص۲۹،۳۸)

👈🏻 جس پانی میں کتا پڑ گیا ہو ، اگر اس کا منہ اس میں نہ لگا ہو تو اس پانی سے وضو کرلے اور غسل بھی نماز جائز ہے ۔

( در مختار ج،۱ ص ۳۸)

👈🏻 نماز پڑھتے ہوئے نجس چڑیا سر پر بیٹھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
 (ردالمختار شرح در مختار ج،۱ ص۳۶۳)

👈🏻 نجاست آلود کپڑوں والا بچہ گود میں بیٹھا ہو تو حرج نہیں نماز جائز ہے ۔

(رد المختار ج ۱، ص ۳۶۳، فتاویٰ ظہیریہ )    مولانا عبدالواحد گجرات  جب تک  زيندا هون ان حوالون کا زمه دارهون

NABI SAW KI WAFAT


ے ساتھ ۹؍ربیع الاول ۱ ؁عام الفیل کو آپ کا یوم پیدائش ہوناذکر کیاہے.
▪جیساکہ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:چمنستان دہرمیں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں، چرخ نادرۂ کارنے کبھی کبھی بزم عالم میں اس سروسامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوگئیں لیکن آج (یعنی ۹؍ربیع الأول) کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظارمیں پیرکہن سال سردمہر نے کروڑوں برس صرف کردیئے.........یعنی یتیم عبداللہ ،جگرگوشۂ آمنہ ،شاہ حرم، حکمران عرب، فرمانروائے عالم، شاہ کونین عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف فرمائے عزت واجلال ہوئے‘‘ ۔
(سیرت النبیﷺ ۱؍۱۷۰،۱۷۱)

▪مولانا اکبرشاہ خاں نجیب آبادی اپنی کتاب ’’تاریخ اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں ’’۹؍ربیع الأول عام الفیل ۴۰جلوس کسری نوشیرواں مطابق ۲۲؍اپریل ۵۷۱ء بروز دوشنبہ بعدازصبح صادق اورقبل ازطلوع آفتاب آنحضرتﷺ پیداہوئے‘‘۔ (تاریخ اسلام ۱؍۷۶)
▪علامہ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ہمارے نبیﷺ موسم بہارمیں دوشنبہ کے دن۹؍ربیع الأول عام الفیل مطابق۲۲؍اپریل ۵۷۱ھ ؁ مطابق یکم جیٹھ ۶۲۶ ؁ بکر می کومکہ معظمہ میں بعداز صبح صادق وقبل ازنیرّ عالم تاب پیداہوئے۔
(رحمۃ للعالمین ص:۴۰)
▪مولاناصفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:’’رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر۹؍ربیع الأول ۱ ؁ عام الفیل یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیداہوئے‘‘۔
(الرحیق المختوم:ص:۸۳)
▪مصرکے نامور ماہرفلکیات اور مشہور ومعروف ہیئت داں محمود پاشا فلکی نے بھی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ آپ ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش ۹؍ربیع الأول ہی آتا ہے ۔
(بحوالہ سیرت النبیﷺ ۱؍۱۷۱،۱۷۲)
▪امام سہیلی نے نقل کیا ہے کہ ’’ہاتھی ماہ محرم میں آیا تھا اور آپﷺ اس واقعہ کے پچاس دن بعد پیداہوئے تھے، جب کہ عام امام سہیلی اورمحمد بن اسحاق کے بقول جمہور اہل علم کامشہور مسلک یہی ہے ‘‘۔
(سیرت ابن ہشام اردو۱؍۱۸۲وسبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد۱؍۳۳۶)
▪اسی طرح بعض سیرت نگاروں نے ۲؍ربیع الأول ،کسی نے آٹھ، کسی نے بارہ کسی نے سترہ اورکسی نے اٹھارہ اوربعض نے بائیس ربیع الأول کہا‘‘۔
(البدایۃ والنہایۃ۲؍۲۶۰)
متذکرہ بالااقوال سے معلوم ہواکہ ۹؍ربیع الأول ہی آپﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش ہے ۔

عیدمیلادالنبیﷺ کا موجد وزمانہ ایجاد:۔
▪عیدمیلادالنبیﷺ کوساتویں صدی ہجری ۶۲۵ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی اورموصل کے قریبی شہراربل کے گورنر ملک مظفر ابوسعید کو کبری نے رواج دیا۔
(البدایۃ والنہایۃ ۱۳؍۱۳۷،الحاوی للسیوطی۱؍۱۸۹، ومسئلہ میلاد اسلام کی نظرمیں ص:۵۵)
▪اسی طرح فتاوی حافظ ابوالخیر سنحاوی میں ہے ’’مولد شریف کاذکرقرون ثلاثہ مفضلہ میں سلف میں سے کسی سے منقول نہیں یہ بعدکی ایجاد ہے۔
(بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۵)
▪حافظ ابن حجر نے بھی اسی طرح لکھا ہے:تواریخ اورمجوزین مولد کے رسائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ۶۰۴ھ ؁ میں مولودایجاد ہوا، اورشہر موصل میں ایک مجہول الحال شخص شیخ عمربن محمد ملانے ایجادکیا اورصاحب اربل (سلطان مظفر ابوسعید) کوکبرینے اس کی اقتداء کی۔
( سیرت شامی بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۶)
▪شامی کی تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ اربل نے عمربن محمد کی اقتداء کی تھی اوراصل موجد عمربن محمد تھا، اورحقیقت یہی ہے کہ عمربن محمدایک غریب اورمفلوک الحال شخص تھا، اس ل