Sunday 23 July 2017

TAREEKH E DEWBANDIYAT


?تاریخ فرقہ دیوبند  دیوبندیت ایک جدید فرقہ ہے جو دیوبندی کتب کے مطابق 30 مئی 1867 میں ہندوؤں اور انگریزوں کے تعاون سے بننے والے مدرسہ دیوبند کی تعمیر کیساتھ ہی معرض وجود میں آیا اس کا مختصر احوال ملاحضہ کیجیے: 🤓🤓🤓  👈🏾دارالعلوم دیو بند کے موسسین میں پہلا نام مولانا ذوالفقار علی ولد فتح علی کاہے جو مولانا محمو د الحسن کے والد بزرگوار تھے ۔یہ دہلی کالج میں پڑھتے رہے ‘ بریلی کالج میں پروفیسر رہے پھر شعبہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس بنے پھر پنشن کے بعد دیو بند تشریف لے آئے اور حکومت برطانیہ سے وفاداری کے اعزا ز میں آنریری مجسٹریٹ بنا دیئے گئے۔انہوں نے 30مئی 1867ءمیں دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھی ۔ دوسرے مولانا فضل الرحمن تھے جو مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد بزرگوار تھے۔انہوں نے دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا ۔مولانا یعقوب علی نانوتوی دارالعلوم دیو بند کے پہلے مدرس تھے ۔مولانا قاسم نانوتوی دہلی کالج سے فارغ ہوئے تو پہلے مطبع احمدی پھر مطبع مجتبائی میرٹھ میں اور اس کے بعد مطبع مجتبائی دہلی میں پروف ریڈر رہے اس کے بعد مستقل طور پر مدرسہ دیو بند میں پڑھاتے رہے (احسن نانوتوی)خصوصی تحریر ص691,195,47,45) 👈🏾مدرسہ دیو بند کی تعمیر کے لئے جن ہندوؤں نے چندہ دیا ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔منشی تلسی رام ‘ رام سہائے ‘ منشی ہر دواری لال‘ لالہ بجناتھ ‘ پنڈت سری رام ‘ منشی موتی لال ‘ رام لال‘ سیو رام سوار ۔ (سوانح قاسمی 2/317)🚩قاری طیب دیو بندی مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں: ”چنانچہ دارالعلوم دیو بند کی ابتدائی روداد میں بہت سے ہندوﺅں کے چندے بھی لکھے ہوئے ہیں“۔ ( خطبات حکیم الاسلام9/149) 13جنوری 1875ءبروز یک شنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے اس مدرسہ کا دورہ کیا تو اس نے اس کے متعلق بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا۔اس معائنے کی رپورٹ کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں ۔ 🇬🇧”یہ مدرسہ سرکار کے خلاف نہیں بلکہ موافق سرکار ممد و معاون سرکار ہے۔یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ہیں کہ ایک دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں 👈🏾(احسن نانوتوی ص217‘تصنیف محمد ایوب قادری دیوبندی ‘ فخر العلماءص 60مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو انگریزی حکومت کی طرف سے چھ سو روپیہ ماہوار ملتا تھا“ ۔ (مکالمہ الصدرین ص 9‘ تقریر شبیر احمد عثمانی دیوبندی) 👈🏾اس بات کا تذکرہ تھانوی صاحب نے الاضافات الیومیہ 6-56 ملفوظ نمبر 108میں بھی کیا ہے ====================دارالعلوم دیو بند کا جب صد سالہ جشن منایا گیا تو مہمان خصوصی (صدر مجلس ) بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم جگ جیون رام تھے۔مسز اندرا گاندھی نے علماءدیوبند کو خطاب فرمایا نیز مسٹر جگ جیون رام نے بھی علماءدیوبند کو بالخصوص اور عوام الناس کو بالعموم وعظ و نصیحت سے مستفید فرمایا ۔ اس صد سالہ جشن دیو بند کی روداد بھی چھپی جس میں مہمانان گرامی کی تصاویر نمایاں طور ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ 👈🏾آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
2،  علماء دیوبندکابدترین عقیدہ   انہیں کی کتابوں کے حوالےسے  ============
👇علمائے دیوبند کے اکابر ین مردوں سے فیض حاصل کرنے کی کھلی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں یعنی ان کے نزدیک قبروں والے حاجت روائی کر سکتے اور مصیبت اور تنگی کے وقت ان کی مدد کے لیے قبورں قبروں سے نکل کر ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں ،اور پھر علمائے دیوبند کا کہنا ہے کہ ہم میں اور بریلوی حضرات میں عقائد کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے،ملاحظہ فرمائیں قبروں پر شرح صدر کی اصلیت کیا ہے، جناب رشید گنگوہی صاحب سے ایک سوال:    



بعض صوفیاء اولیاء کی قبروں پر آنکھ بند کرکے بیٹھتے ہیں اور سورۃ الم نشرح پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ کھلتا ہے اور ہم کو بزرگوں سےفیض ہوتا ہے اس بات کی کچھ اصل بھی ہے یا نہیں ۔
جواب :۔ دیوبندی فتوی اس میں کوئی حرج نہیں اگر  نیت خیر ہے فقط واللہ اعلم (فتاوى رشیدیہ : ۵۹)
اہل قبور سے علم کا حاصل ہونا اور مشورہ کا جواب ملنا ممکن ہے ۔یعنی اب آپ بلاجھجک ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے براہ راست علم حاصل کرسکتے ہیں
یعقوب نانوتی صاحب علمائے دیوبند معروف مشایخ میں سے ہیں , وہ علمائے دیوبند کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
اور بعض لوگوں کو جو بطور خرق عادت اہل قبور سے تعلیم علم یا جواب مشورہ وغیرہ امور حاصل ہوتے ہیں وہ ایک فیض غیبی ہے کہ اہل استعداد کو بوساطت بعضی ارواح کے ہو جاتا ہے،دیوبندیت کے پر اسرار امام حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نہ جانے وجدمیں آکر کیا کیا کہتے رہے ہیں اور آل تقلید کی بد عقیدگیوں کے سربستہ رازوں کو کیسے کیسے افشاء کرتے رہے ہیں , ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمالیں آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم قبر مقدس خود سے بصورت حضرت میانجو صاحب قدس سرہ نکلے اور عمامہ لیا ہوا اور ترہ اپنے دست مبارک میں لیے ہوئے تھے میرے سر پر غایت شفقت سے رکھ دیا اور کچھ نہ فرمایا اور واپس تشریف لے گئے ۔
(امداد المشتاق صفحہ ۱۹)
جناب خلیل احمد سہارنپوری صاحب سے فیض حاصل کرنے کی بابت رقم طراز ہیں:
"اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا سو بیشک صحیح ہے مگر اس طریق سے جو اس کے اہل اور خواص کو معلوم ہے نہ اس طرز سے جو عوام میں رائج ہے ۔" (المہند على المفند ص ۵۸ )
دیوبندیت کے امام حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نہ جانے وجد میں آکر کیا کیا کہتے رہے ہیں اور مقلدین کے سربستہ رازوں کو کیسے کیسے افشا کرتے رہے ہیں , ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمالیں :


میں (راوی ملفوظات) حضرت کی خدمت میں غذائے روح کا وہ سبق جو شاہ نور محمد صاحب کی شان میں ہے سنا رہا تھا ۔ جب اثر مزار شریف کا بیا ن آیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا ۔ بعد انتقال حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیے ۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے یا آدھ آنہ روز ملا کرے گا ۔ ایک مرتبہ میں زیارت مزار کو گیا ۔ وہ شخص بھی حاضر تھا ۔ اس نے کل کیفیت بیان کرکے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقرر پائیں قبر سے ملا کرتا ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ ۱۴۴)
یعنی اہل قبور اس بات پر قادر ہیں کہ وہ کسی کو وظیفہ بھی مہیا کر سکتے ہیں۔
حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں :
دور کر دل سے حجاب جہل وغفلت میرے رب کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے ہادی عالم علی مشکل کشا کے واسطے!(کلیات امدادیہ، ص:103)
میری کشتی کنارے پر لگاؤ یا رسول اللہ! (کلیات امدادیہ، ص:105)
جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں لکھا:
''آپ نے ایک شخص کو مخاطب ہوکرفرمایا: ''جب تیرے باپ پر مصیبت نازل ہوئی تو اس کی فریاد کو پہنچا اور میں ہر اس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے۔ (تبلیغی نصاب، ص791)
آل دیوبند کے نزدیک پیر عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم ہیں۔ (تعلیم الدین، اشرف علی تھانوی ، ص:18)
حسین علی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
''الہٰی بحرمت خواجہ مشکل کشا سید الاولیاء سند الاتقیاء رأس الفقہاء ورئیس الفضلاء ، شیخ المحدثین قبلۃ السالکین امام العارفین برہان المعرفۃ شمس الحقیقۃ فرید العصر وحید الزمان حاجی الحرمین الشریفین فیض الرحمان پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان "(فیوضات حسینی/ تحفہ ابراہیمیہ، ص:28، مترجم: صوفی عبدالحمید سواتی دیوبندی)
مولانا زکریا صاحب تبلیغی فرماتے ہیں :
''رسول خدا نگاہ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین رحم فرمائیے ۔آپ یقینا رحمۃللعالمین ہیں ہم حرماں نصیبوں اور ناکامان قسمت سے آپ کیسے تغافل فرماسکتے ہیں......عاجزوں کی دستگیری بے کسوں کی مدد فرمایے اور مخلص عشاق کی دلجوئی اور دلداری کیجیے''(فضائل درود، ص:128 وتبلیغی نصاب، ص:806)
مولانا سید مناظر احسن گیلانی صاحب، مولانا قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند کے متعلق مولانا منصور عل خان صاحب سے نقل کرتے ہیں:
مولانا قاسم صاحب اگر اکیلے کسی مزار(قبر) پر جاتے اور کوئی دوسرا شخص (عوام الناس میں سے ) وہاں موجود نہ ہوتا تو آواز سے عرض کرتے :آپ میرے واسطے دعا کریں ۔(سوانح قاسمی:ج ۲،ص۲۹)
مندرجہ بالا اقتسابات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ علمائے دیوبند کے اکابر کے نزدیک قبور سے فیض ملتا ہے، ان سے مشورہ بھی کیا جا سکتا ہے، اور ضرورت کے وقت ان کو مدد کے لیے پکارا بھی جا سکتا ہے، یعنی بریلوی اور دیوبند ی اس عقیدے میں ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں، اللہ حق بات کو سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تلیخص ابوالمکرم سلفی




No comments:

Post a Comment