Tuesday 11 July 2017

عطائی علم غیب کیا ہے؟



==============
جب ان لوگوں سے ان آیتوں اور احادیث کا ردّ نہ ہوسکا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول علم غیب نہیں جانتے تھے تو انہوں نے علم غیب کی عجیب وغریب تقسیم کردی اور ذاتی اور عطائی کے چکر میں بھولے بھالے لوگوں کو ڈال دیا کہ ذاتی علم غیب تو صرف اﷲ کو ہے مگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطائی علم غیب ہے لہٰذا وہ بھی عالم الغیب ٹھہرے۔
حالانکہ عالم الغیب ہونا اﷲتعالیٰ کی صفت ہے اور اﷲتعالیٰ یہ صفت کسی مخلوق کو عطا نہیں کرتا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس وقت عطائی عالم الغیب تصور کیاجاتاہے کہ بالفرض اگر اﷲتعالیٰ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوخاص اپنی یہ قوت وصفت جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا بالکل اسی طرح یہ قوت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطافرمادیتا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ قوت وصفت ملنے کے بعد کسی کی مدد کے جس طرح اﷲتعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اس طرح جاننے لگتے تو پھر یہ عقیدہ بنایا جاسکتا تھا کہ اﷲتعالیٰ بھی عالم الغیب ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی عالم الغیب ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے اور رسول کو یہ قوت یہ علم اﷲنے عطا کیا ہے لہٰذا رسول کا علم عطائی ہے۔۔۔
لیکن کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی صفت اپنی قوت علم غیب جاننے کی نبی میں منتقل کردی اور نبی بھی عطا کی گئی قوت کے بعد علم غیب جاننے لگے ہوں۔
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم علم غیب نہیں جانتے تھے اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں غیب جاننے کی قدرت نہیں عطا کی بلکہ غیب کی خبریں وقتا فوقتا جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے بتائیں (یعنی آپ نہیں جانتے تھے غیب کی خبریں آپ کو اﷲنے بتائیں )۔ اب اگر بتائی ہوئی غیب کی باتوں پر ہم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطائی عالم الغیب کہیں تو عقیدہ بھی خراب ہوجائے گا اور اس کا نتیجہ بھی صحیح نہیں نکلے گا۔۔۔۔
مثلاً اگر بتائی ہوئی باتوں سے کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم عطائی عالم الغیب کہلائے گا تو غیب کی خبریں اﷲ تعالیٰ نے صرف ہمارے نبی کو نہیں بتائیں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام لے کر جتنے بھی نبی اور رسول تشریف لائے سب عطائی عالم الغیب کہلائیں گے اس کے علاوہ ہمارے نبی پر اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے وحی کرتاتھا اس سب سے پہلے اﷲتعالیٰ غیب کی خبریں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بتاتا تھا لہٰذا حضرت جبرائیل بھی عطائی عالم الغیب کہلائیں گے پھر حضرت جبرائیل وہ خبریں وحی کرتے تھے ہمارے نبی کے قلب پر اس خبر کو سننے کے بعدلوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول عطائی عالم الغیب کہلائے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ رسول نے اس غیب کی خبر کا کیا کیا اگر رسول اس خبرکو اپنے تک ہی رکھتے تب بھی ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ رسول کو تو اﷲتعالیٰ نے غیب کی خبر بتائی ہیں رسول، اﷲ کی عطا سے غیب کی باتیں جانتے ہیں ہم نہیں جانتے لہٰذا رسول عطائی عالم الغیب ہیں لیکن میرے بھائیو! رسول اﷲنے وہ غیب کی باتیں اپنے تک محدود نہیں رکھیں بلکہ پوری امت کو سنادیں دراصل غیب کی باتیں تھیں ہی امت کے لیے نبی تو مبعوث ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ غیب کی باتیں اﷲانہیں بتائے اور وہ امت کو تاکہ امت ان غیب کی باتوں پر ایمان لاکر اپنے رب کی فرمانبردار بنے اب نبی کی عطا سے پوری امت غیب جانتی ہے لہٰذا پوری امت عطائی عالم الغیب ٹھہرے گی یقینا اس عقیدے کے تحت ایسا ہی ہوگا نبی اﷲکی عطا سے عطائی عالم الغیب اور امت نبی کی عطا سے عطائی عالم الغیب یہ بات صحیح ہے کہ عام امتی کو اتنا علم نہیں ہے جتنا علم ہمارے بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہے لیکن تھوڑا ہی سہی نبی کی عطا سے ہے تو بہت ساری باتیں ہم اور آپ جانتے ہیں جو غیب ہیں مثلاً جنت ،دوزخ ،فرشتے ،روح ،قیامت ،دجال ،ابلیس ،اوربہت ساعی باتیں جانتے ہیں جو غیب کی ہیں اورنبی نے عطا فرمائی ہیں پھر ایک دوسرے کو کیوں نہیں عطائی غیب داں کہتے ؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کل علم بھی رسول کو وحی کے ذریعے بتا دیتے تو پھر بھی اس علم پر وہ نبی اپنا دعویٰ نہیں کرسکتا اور نہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں غیب جانتا ہوں کسی بھی قسم کا ،اور نہ کسی نبی نے غیب کا دعویٰ کیا یہ محض کم عقل لوگوں کی سوچ ہے جو خود بھی گمراہ ہوئے اور نہ جانے کتنے لوگوں کو گمراہ کیا
بیشک ہمارے نبی کو اﷲتعالیٰ نے تمام انبیاء سے زیادہ علم عطا فرمایا مگر غیب دان نبی نہیں تھے بلکہ اﷲہے اﷲان پر غیب ظاہر فرماتا ہے اور وہ لوگوں تک اس بات کی تبلیغ کردیتے تھے ۔جب بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کہا جائے گااس طرح کہا جائے گا کہ نبی غیب نہیں جانتے تھے اﷲانہیں غیب کی باتیں بتاتاتھا یہی بات قرآن میں لکھی ہے یہی حدیث میں لکھی ہے یہی صحابہ کرام کا عقیدہ تھا یہی ام ال

No comments:

Post a Comment