=========================
اہل الرائے کا دعویٰ ہے کہ ہاتھ ناف سے نیچے باندھے جائیں ۔ ان کے پیش کردہ دلائل درج ذیل ہیں:
دلیل نمبر۱:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں سنت یہ کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
(سنن ابی داؤد ۴۸۰/۱، ۴۸۱ ح ۷۵۸، ۷۵۶)
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی علمائے اسماء الرجال کی نظر میں
۱۔ ابوزرعہ الرازی نے کہا: لیس بالقوی (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
۲۔ ابو حاتم الرازی نے کہا: ھوضعیف الحدیث ، منکر الحدیث یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
۳۔ ابن خزیمہ نے کہا: ضعیف الحدیث (کتاب التوحید ص ۲۲۰)
۴۔ ابن معین نے کہا: ضعیف ، لیس بشیء (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵ وسندہ صحیح ، تاریخ ابن معین ۱۵۵۹، ۳۰۷۰)
۵۔ احمد بن حنبل نے کہا: منکر الحدیث (کتاب الضعفاء للبخاری ۲۰۳، التاریخ الکبیر ۲۵۹/۵)
۶۔ بزار نے کہا: لیس حدیثہ حدیث حافظ (کشف الاستار: ۸۵۹)
۷۔ یعقوب بن سفیان نے کہا: ضعیف (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۹/۳)
۸۔ عقیلی نے کہا: ذکرہ فی کتاب الضعفاء (۳۲۲/۲)
۹۔ العجلی نے کہا: ضعیف جائز الحدیث یکتب حدیثہ (تاریخ العجلی : ۹۳۰)
۱۰۔ بخاری نے کہا: ضعیف الحدیث (العلل للترمذی ۲۲۷/۱)
اور کہا:فیہ نظر (الکامل لابن عدی۱۶۱۳/۴ وسندہ صحیح)
۱۱۔ نسائی نے کہا: ضعیف (کتاب الضعفاء للنسائی: ۳۵۸)
اور کہا: لیس بثقۃ (سنن النسائی ۹/۶ ح۳۱۰۱)
۱۲۔ ابن سعد نے کہا: ضعیف الحدیث (طبقات ابن سعد ۳۶۱/۶)
۱۳۔ ابن حبان نے کہا: کان ممن یقلب الاخبار والاسانید وینفرد بالمناکیر عن المشاھیر ، لا یحل الاحتجاج بخیرہ (کتاب المجروحین ۵۴/۲)
۱۴۔ دارقطنی نے کہا: ضعیف (سنن دارقطنی ۱۲۱/۲ ح ۱۹۸۲)
۱۵۔ بیہقی نے کہا: متروک (السنن الکبری ۳۲/۲)
۱۶۔ ابن جوزی نے اس کو الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا اور کہا: "وویحدث عن النعمان عن المغیرۃ احادیث مناکیر" (۸۹/۲ ت ۱۸۵۰)
اور کہا: "المتھم بہ عبدالرحمٰن بن اسحاق" (الموضوعات ۲۵۷/۳)
۱۷۔ الذہبی نے کہا: ضعفوہ (الکاشف ج ۲ ص ۲۶۵)
۱۸۔ ابن حجر نے کہا: کوفی ضعیف (تقریب التہذیب : ۳۷۹۹)
۱۹۔ نووی نے کہا: ھو ضعیف بالاتفاق (شرح مسلم ج۴ ص ۱۱۵، نصب الرایہ ج ۱ ص ۳۱۴)
۲۰۔ ابن الملقن نے کہا: فانہ ضعیف (البدر المنیر ۱۷۷/۴)
الزرقانی نے بھی شرح مؤطا امام مالک (ج۱ ص ۳۲۱) میں کہا: "واسنادہ ضعیف"
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جمہور محدثین کرام کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے بعض نے اس کو متہم اور متروک بھی کہا لہٰذا اس کی روایت مردود ہے۔
اسی لیے حافظ ابن حجر نے کہا: "واسنادہ ضعیف" (الدرایہ ۱۶۸/۱)
بیہقی نے کہا: "لایثبت اسنادہ"
نووی نے کہا: "ھو حدیث متفق علی تضعیفہ" (نصب الرایہ ج۱ ص۳۱۴)
زیلعی حنفی نے تو اس کی کوئی تردید نہیں کی مگر نصب الرایہ کے متعصب محشی فرماتے ہیں:
"ترمذی نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کی حدیث کی تحسین اور حاکم نے تصحیح کی ہے" حالانکہ ترمذی اور حاکم دونوں ان لوگوں کے نزدیک تساہل کے ساتھ مشہور ہیں۔ ترمذی نے کثیر بن عبداللہ کی حدیث کی تصحیح کی ہے جبکہ کثیر کو کذاب بھی کہا گیا ہے ، اسی لیے بقول حافظ ذہبی "علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔"
(میزان الاعتدال ۴۰۷/۳)
حاکم نے مستدرک میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی حدیث کی تصحیح کی ہے ، حالانکہ یہی حاکم اپنی کتاب "المدخل الی الصحیح" میں لکھتے ہیں:
"روی عن ابیہ احادیث موضوعۃ لا یخفی علی من تاملھا من اھل الصنعۃ ان الحمل فیھا علیہ" (ص۱۰۴)
زیلعی حنفی لکھتے ہیں کہ: "وتصحیح الحاکم لا یعتد بہ" (نصب الرایہ ۳۴۴/۱)
یعنی حنفیوں کے نزدیک حاکم کی تصحیح کسی شمار وقطار میں نہیں ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن خزیمہ نے تو عبدالرحمٰن پر جرح کی ہے۔ دیکھئے کتاب التوحید (ص۲۲۰)
یاد رہے کہ عبدالرحمٰن مذکور کی تحت السرۃ والی روایت کو کسی محدث وامام نے صحیح یا حسن نہیں کہا، لہٰذا امام نووی کی بات صحیح ہے کہ یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔
عبدالرحمٰن کے اساتذہ میں زیاد بن مجہول ہے۔ (تقریب التہذیب: ۲۰۷۸)
نعمان بن سعد کی توثیق سوائے ابن حبا کے کسی نے نہیں کی اور اس سے عبدالرحمٰن روایت میں تنہا ہے لہٰذا حافظ ابن حجر نے کہا: "فلا یحتج بخیرہ" (تہذیب التہذیب ۴۰۵/۱۰)
عبدالرحمٰن الواسطی نے "عن سیار ابی الحکم عب ابی وائل قال قال ابو ھریرۃ۔۔۔"
کی ایک سند فٹ کی ہے، اس کے بارے میں امام ابو داؤد نے کہا:
"وروی عن ابی ھریرۃ ولیس بالقوی"
اور ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے اور وہ قوی نہیں ہے۔
(سنن ابی داؤد ج ۱ ص۴۸۰ حدیث ۷۵۷)
واللہ تعالی اعلم
No comments:
Post a Comment