Wednesday 12 July 2017

مقتدی ومنفرد کا تکبیرات نماز سراً کہنا اور امام کاجہراً کہنا اکیلا نمازی اور مقتدی ہمیشہ تکبیر تحریمہ آہستہ آواز سے کہتے ہیں ۔ صرف حدیث سے جواب دیں ؟







الجواب بعون الوہاب


کیا وجہ ہے کہ سائل نے صرف حدیث کی قید لگا دی ہے , کیا وہ قرآن کو حجت تسلیم نہیں کرتا؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ قرآن یا حدیث سے دکھائیں ؟؟!۔
خیر .... اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ
(الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکال بغیر کیا جائے ۔ لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔
اور تکبیر , یعنی اللہ اکبر بھی اللہ کا ذکر ہی ہے ۔ اس پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا کہ یہ بھی دل میں , اونچی آواز نکالے بغیر کہی جائے , ہاں مکبر اور امام کا بآواز بلند تکبیرات انتقال کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے لہذا وہ اس اصول سے مستثنى ہیں ۔ خوب سمجھ لیں ۔

No comments:

Post a Comment